مرے قریں نشست پر براجماں جو تم ہوئی
تری حسین آنکھ میں یہ کائنات گم ہوئی
مجھے لگا “ستارگاں کی روشنی” و “شربتوں کی چاشنی”
ترے بدن میں ضَم ہوئی
تو رونقِ اِرَم ہوئی
مجھے لگا بہشت میں ہیں ہم
جہاں کا میں ہوں مرُزَبان حورِ عین تم ہوئی
مجھے لگا
ہیں پاک ہم حدود سے قیود سے
ہیں رونقیں سبھی یہاں
ترے مرے وجود سے
یہ عسرتِ بدن میں خُم نُما کمر لئے جو تو اٹھا
مجھے لگا سُبو اٹھا
مجھے لگا بدن ترا ہے انجمن رقص کی سُرود کی
مجھے لگا یہ نہر ہے
انگبیں یا دودھ کی

0
61