وہ میرا ہو کہ بھی حاصل نہیں ہے
کہ گویا وصل ہے واصل ںہیں ہے
قبائے وقت میں چھپ جائے دھڑکن
ہمارے پاس ایسا دل نہیں ہے
ابھی برسے گا پھر سے ابر باراں
ہوا بے ربط ہے بزدل نہیں ہے
ہے حائل چند صدیوں کا زمانہ
مری دنیا ترے قابل نہیں ہے
خدایا نسل بسمل کیسی سینچی
کسی کو بولنا حاصل نہیں ہے
منظم ہو رہا ہے وقت فرقت
ابھی بےتابی کامل نہیں ہے
عجب ہے آرزو کی وصف حیدر
سکوں ہے پر سکوتِ دل نہیں ہے

0
17