عمل نہیں ہے ، زباں میں ہو پھر اثر کیسے
نہ باغ سینچیں اگر ہم ، ملیں ثمر کیسے
ہوا ہے تجربہ حالات سے گزر کے ہمیں
طویل گرچہ تھی شب ، ہو گئی سحر کیسے
رموزِ عشق سے واقف نہیں خرد اب تک
جنوں نے آگ کو ٹھنڈا کیا ، مگر کیسے
چلے ہیں جب بھی کہیں ، کارواں کے ساتھ چلے
پتہ چلا نہ ہمیں کب کٹا ، سفر ، کیسے
زمانہ دیکھ رہا ہے ہمیں جو حیرت سے
اُٹھے کہاں سے تھے پہنچے یہاں اگر ، کیسے
سوال یہ ہے کہ اک رات عرش تک پہنچے
مقام جس نے یہ پایا ، ہوا ، بشر کیسے
اسی نے سلسلہ قائم کیا سزا و ثواب
حساب اس کو ہی دینا ہے ، پھر مفر کیسے
خدا کا ہاتھ ہے ، اس ہاتھ پر جو تھاما ہے
یہاں پڑے ہیں تو چھوڑیں گے اب یہ در کیسے
ہے طارق اور کہاں اس جہاں میں یہ نعمت
ہمارے سر پہ ہے سایہ ہوا سپر کیسے

0
34