ڈھل گئے ہیں ماہ و سال دیکھتے ہی دیکھتے
اُڑ گیا جاہ و جلال دیکھتے ہی دیکھتے
ہو گئی ہیں سب ہی خاک مٹ گئی ہیں رونقیں
شہر ہے اب خال خال دیکھتے ہی دیکھتے
جستجو کی تھی وہ بات پوچھنا ہی پوچھنا
ختم ہیں سارے سوال دیکھتے ہی دیکھتے
حسن ادا اور وہ ناز دبدبے کی منزلیں
گم ہوا تیرا جمال دیکھتے ہی دیکھتے
اب سمجھ آئی یہ بات کھُل گیا یہ راز بھی
ہر ادا رُوبہ زوال دیکھتے ہی دیکھتے
تیری ہمایوں یہ بات مجھ کو پسند آ گئی
تُو بنا ہے اک وبال دیکھتے ہی دیکھتے
ہمایوں

0
30