عُمریں گزر گئی ہیں اِسی اِحتِمال میں
بن جائیں ہم نشین کسی ماہ و سال میں
تاخیر سے سہی مگر اب جانتے ہیں شیخ
کچھ فائدہ ہؤا نہ ہے جنگ و جدال میں
دنیا کی تند و تیز ہواؤں سے لڑ سکے
ناپیَد ہیں وہ خوبیاں اس نو نہال میں
درسِ ہُدیٰ کے درمیاں یک دم رُکے خطیب
نظریں گڑھی ہوئی تھیں کسی مہ جمال میں
کتنے غریب چل بسے گندم کے قحط میں
ڈھونڈے گا کون قحط ہے قحط اَلرّجال میں
دارو ہو کچھ غریب کی عسرت کا چارہ گر
لفظوں سے پیٹ بھرتے ہیں نہ اِندمال میں
تیری کتاب کون خریدے گا اب امید
ملتے ہیں اب تو پان بھی اُجلے رُمال میں

0
72