ذہن تو دفتری کاموں میں اُلجھا رہتا ہے |
دل کہیں تیرے پہلُو میں ہی پڑا رہتا ہے |
تُم کبھی میرے نالوں سے آ کر پتہ کرنا |
کون ہے جو میرے بستر پہ مرا رہتا ہے |
کوئی سُلگتا رہتا ہے ساری ہی رات اور |
تیرے لکھے ہوئے سندیسے پڑھتا رہتا ہے |
کتنا مسئلہ ہے کہ نماز کے درمیاں میں بھی |
ایک سراپا جو آنکھوں میں بھرا رہتا ہے |
میرے گھر میں پڑی ہے زندگی بھر کی کمائی |
اور اک چور خیال جو پیچھے لگا رہتا ہے |
اب ہر روز ہی آپے میں لانا پڑتا ہے |
دھیان جو ترچھی سمتوں میں بکھرا رہتا ہے |
لوگوں کا کیا ہے فیصل اُن کی زبانوں پر تو |
کوئی نہ کوئی ذکر ہمیشہ دھرا رہتا ہے |
فیصل ملک |
معلومات