آئنہ دیکھ کے ہم تیرا ، سنورتے جاتے
ہم تری بات جو سنتے تو نکھرتے جاتے
دیکھ کر ہم کو فرشتے بھی تو حیراں ہوتے
ہم تِرا رنگ جو کردار میں بھرتے جاتے
کتنی گہرائی سے بندہ تِرا لایا موتی
دیکھ کر ان کی چمک لوگ ٹھہرتے جاتے
حسن کے اور بھی قائل ہوئے لاکھوں تیرے
ہیں مگر ، جگ کی روایات سے ڈرتے ، جاتے
تُجھ سے ہم رسمِ وفا خوب نبھاتے مل کر
ہم محبّت میں تری جاں سے گزرتے جاتے
توڑ کر ہم کو چمن سے جو الگ کر تے ہیں
ہم ہیں خوشبو کی طرح اور بکھرتے جاتے
ان کے قدموں میں گزارے ہوئے دن یاد آئیں
اتنا آساں تو نہیں ہے کہ بِسرتے جاتے
ہم تو خورشید کی مانند جیا کرتے ہیں
ڈوب جائیں بھی تو ہیں اور ابھرتے جاتے
طارق انجام جو دیکھا کئی فرعونوں کا
منہ کی کھاتے ہوئے ، ناکام ہیں مرتے جاتے

26