آئنہ دیکھ کے ہم تیرا ، سنورتے جاتے |
ہم تری بات جو سنتے تو نکھرتے جاتے |
دیکھ کر ہم کو فرشتے بھی تو حیراں ہوتے |
ہم تِرا رنگ جو کردار میں بھرتے جاتے |
کتنی گہرائی سے بندہ تِرا لایا موتی |
دیکھ کر ان کی چمک لوگ ٹھہرتے جاتے |
حسن کے اور بھی قائل ہوئے لاکھوں تیرے |
ہیں مگر ، جگ کی روایات سے ڈرتے ، جاتے |
تُجھ سے ہم رسمِ وفا خوب نبھاتے مل کر |
ہم محبّت میں تری جاں سے گزرتے جاتے |
توڑ کر ہم کو چمن سے جو الگ کر تے ہیں |
ہم ہیں خوشبو کی طرح اور بکھرتے جاتے |
ان کے قدموں میں گزارے ہوئے دن یاد آئیں |
اتنا آساں تو نہیں ہے کہ بِسرتے جاتے |
ہم تو خورشید کی مانند جیا کرتے ہیں |
ڈوب جائیں بھی تو ہیں اور ابھرتے جاتے |
طارق انجام جو دیکھا کئی فرعونوں کا |
منہ کی کھاتے ہوئے ، ناکام ہیں مرتے جاتے |
معلومات