اندیشہء زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ |
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ |
الجھی ہوئی کہانی سنو گے سناؤں میں |
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ |
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں |
قزاق اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ |
بے چینیاں کمال پہ پہنچی ہیں یوں کہ آج |
ہم چل پڑے ہیں چپکے سے پھر نامہ بر کے ساتھ |
وہ حالِ دل بھی جان گیا کچھ کہے بغیر |
ہم مسکرا دیئے تھے یونہی چشمِ تر کے ساتھ |
آساں نہیں تھا تم سے بچھڑنے کا واقعہ |
کیا کیا اٹھائے رنجِ سفر بحر و بر کے ساتھ |
خاموشیوں نے اپنا بھرم رکھ لیا کہ اب |
دل بھی ہے بے قرار مرے دیدہ ور کے ساتھ |
سولی چڑھیں کہ پار لگیں جانیے کے کیا |
ہو گا خیالِ یار مگر خوف و ڈر کے ساتھ |
معلومات