| جب سے آنکھوں میں پیار دیکھا ہے |
| دھڑکنوں میں اُبھار دیکھا ہے |
| وصل کی پُر حسیں بہاروں سے |
| دل میں بڑھتا قرار دیکھا ہے |
| یادِ دلبر ستانے لگ جائے |
| پھر ابھرتا خمار دیکھا ہے |
| دور تک پھیلی شاخ ہو ایسا |
| خواب میں اک چنار دیکھا ہے |
| جان کر خامشی عبادت ہی |
| کم گُوئی کا شعار دیکھا ہے |
| بچنے کی جو صلاح دیتے تھے |
| بنتے اُن کو شکار دیکھا ہے |
| خود پرستی ہو عام جب ناصؔر |
| زیر ہوتا وقار دیکھا ہے |
معلومات