شکستہ رہ کے سعی کی طرف نہیں دیکھا
ستم گری ہے کمی کی طرف نہیں دیکھا
تھکن اٹھائی غمی کی طرف نہیں دیکھا
"کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا"
کٹھن سفر میں رکھیں عزم پختہ گر دل میں
تپش، جلن، لو کسی کی طرف نہیں دیکھا
غم فراق نے آنکھوں کو اشکبار کیا
پہ حال دیکھیں نمی کی طرف نہیں دیکھا
حریص بھوکے تھے ہیرے جواہرات کے بس
جو قدر داں تھے، زری کی طرف نہیں دیکھا
بجھے بجھے ہیں ارادے، ہے سونا سونا من
سہانی رت ہو، کلی کی طرف نہیں دیکھا
شعور زیست ہے ناصؔر تو انقلاب آئے
ہو بے ضمیری، حسی کی طرف نہیں دیکھا

0
54