جو بھی ہمارے ساتھ تا منزل نہیں رہا
وہ شخص اعتبار کے قابل نہیں رہا
کِردار کا گِرا وہ نظر سے بھی گر گیا
ہے قلبِ کُشتَہ لائقِ محفل نہیں رہا
کَیفَر سے فائدہ نہ ہی شکوے سے سُود ہے
ذِی حِس ہی جب ہمارا وہ قاتل نہیں رہا
حَق بِینِ قوم دیکھ یہاں اَشک بار ہے
جب اِمتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
کیا مُنہَدِم مجھے یاں غمِ روزگار نے
ذِکرِ خدا سے پھر بھی میں غافل نہیں رہا
پِھسلا ہے دست سے جو یاں مَفہومِ نیک و بد
دیکھو تو کوئی میرے مقابل نہیں رہا
ہوتے ہیں دل کے ٹکڑے یہاں پر زبان سے
دنیا میں کوئی کام ہی مشکل نہیں رہا
تمکینِ زیست کو یہاں درکار تھا جو دل
حسانؔ کو وہ دل یہاں حاصل نہیں رہا

0
62