جو بھی ہمارے ساتھ تا منزل نہیں رہا |
وہ شخص اعتبار کے قابل نہیں رہا |
کِردار کا گِرا وہ نظر سے بھی گر گیا |
ہے قلبِ کُشتَہ لائقِ محفل نہیں رہا |
کَیفَر سے فائدہ نہ ہی شکوے سے سُود ہے |
ذِی حِس ہی جب ہمارا وہ قاتل نہیں رہا |
حَق بِینِ قوم دیکھ یہاں اَشک بار ہے |
جب اِمتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا |
کیا مُنہَدِم مجھے یاں غمِ روزگار نے |
ذِکرِ خدا سے پھر بھی میں غافل نہیں رہا |
پِھسلا ہے دست سے جو یاں مَفہومِ نیک و بد |
دیکھو تو کوئی میرے مقابل نہیں رہا |
ہوتے ہیں دل کے ٹکڑے یہاں پر زبان سے |
دنیا میں کوئی کام ہی مشکل نہیں رہا |
تمکینِ زیست کو یہاں درکار تھا جو دل |
حسانؔ کو وہ دل یہاں حاصل نہیں رہا |
معلومات