یہ کیسا سفر ہے، خبر تک نہیں ہے |
کہ دنیا میں کوئی اثر تک نہیں ہے |
صدا دے رہا ہوں میں بے صوت رہ کر |
کہ آنکھوں میں اب وہ شرر تک نہیں ہے |
چراغوں کی لَو تو جلا کے گئے ہیں |
مگر روشنی کا ثمر تک نہیں ہے |
یہ خوابوں کی بستی، یہ خوابوں کے چہرے |
مگر کوئی خوابوں کا در تک نہیں ہے |
جو چہرے تھے روشن، وہ اب ماند کیوں ہیں |
کہ ان میں کوئی بھی ہنر تک نہیں ہے |
نہ وہ روشنی ہے، نہ وہ چاند باقی |
کسی کو کسی کی خبر تک نہیں ہے |
چلے جارہے ہیں زمیں سے سماں تک |
مسافر کا کوئی بھی گھر تک نہیں ہے |
یہ دل ہے کہ اب روشنی ڈھونڈتا ہے |
کہ آنکھوں میں کوئی سحر تک نہیں ہے |
معلومات