بات جب وہ نکل کے عام ہوئی۔۔ |
شہرِ جاناں میں رام رام ہوئی۔۔ |
ملتے ہیں طعنے اب جدھر جائیں۔۔ |
یعنی خوب اپنی دھوم دھام ہوئی۔۔ |
جرم ہے اپنا کیا کہ یہ دنیا۔۔ |
قتل کو محوِ انتظام ہوئی۔۔ |
اس کے دل میں بھی کوئی چاہ نہیں۔۔ |
قربتِ یار طمع خام ہوئی۔۔ |
ایک اور کو سلام کہہ آۓ۔۔ |
ایک اور داستاں تمام ہوئی۔۔ |
نکلے ہیں جس گلی سے، آج وہاں۔۔ |
بارشِ رنج تیز گام ہوئی۔۔ |
اٹھتی ہے چیس، اور شدتِ درد۔۔ |
دل میں مستغرقِ خرام ہوئی۔۔ |
گئے ایماں سے کیا بتائیں ہم۔۔ |
زندگی مے کدے کے نام ہوئی۔۔ |
بچھڑے ہوئے کبھی نہیں ملتے۔۔ |
زیبؔ گھر لوٹیے کہ شام ہوئی۔۔ |
معلومات