بات جب وہ نکل کے عام ہوئی۔۔
شہرِ جاناں میں رام رام ہوئی۔۔
ملتے ہیں طعنے اب جدھر جائیں۔۔
یعنی خوب اپنی دھوم دھام ہوئی۔۔
جرم ہے اپنا کیا کہ یہ دنیا۔۔
قتل کو محوِ انتظام ہوئی۔۔
اس کے دل میں بھی کوئی چاہ نہیں۔۔
قربتِ یار طمع خام ہوئی۔۔
ایک اور کو سلام کہہ آۓ۔۔
ایک اور داستاں تمام ہوئی۔۔
نکلے ہیں جس گلی سے، آج وہاں۔۔
بارشِ رنج تیز گام ہوئی۔۔
اٹھتی ہے چیس، اور شدتِ درد۔۔
دل میں مستغرقِ خرام ہوئی۔۔
گئے ایماں سے کیا بتائیں ہم۔۔
زندگی مے کدے کے نام ہوئی۔۔
بچھڑے ہوئے کبھی نہیں ملتے۔۔
زیبؔ گھر لوٹیے کہ شام ہوئی۔۔

214