غزل:
دُنیا میں کیسے کیسے انسان ہوتے ہیں
انسانیت پہ جن کے احسان ہوتے ہیں
کچھ کارناموں سے ہوتا ہے جو نام اِک
وہ لوگ قوموں کی اِک پہچان ہوتے ہیں
اپنے ارادوں کی خاطر وہ یوں ڈٹتے ہیں
گر رستے میں کوئی جو طوفان ہوتے ہیں
وہ لوگ جو وطن کا کچھ درد رکھتے ہیں
ہر لحضہ وہ وطن پر قُربان ہوتے ہیں
جو ایسے کاموں کو سر انجام دیتے ہیں
اُن کاموں پر تو سارے حیران ہوتے ہیں
جس قوم میں کچھ اچھے انسان پاۓ جائیں
اُس قوم کے مسائل آسان ہوتے ہیں
ہر انساں کے جوانی میں ہوتے خواب ہیں
اِس دل میں کیسے کیسے ارمان ہوتے ہیں
جن باغوں کا نہیں کوئی باغباں تو پھر
ایسے چمن ہمیشہ ویران ہوتے ہیں
محفل میں شور ہے اب اِس بات کا فقط
مسعوؔد آج کس کے مہمان ہوتے ہیں
محمد مسعوؔد انور

41