مرے وجود پہ نقشِ کہن کے لاشے ہیں
مری زبان پہ تشنہ لبی کے افسانے
مرے غنیم کو عقل و خِرد کا ہیضہ ہے
اسے خبر نہیں کس حال میں ہیں دیوانے
مَیں رات ہوں مری تقدیر میں ہے تیرہ شبی
کبھی چڑھے گا دِن یا نہیں سحر جانے
مَیں بھُوک ہوں ہر اک پیٹ میں چمکتی ہوں
مرے شکار ہیں نادار کے صنم خانے
مری جوانی پہ دوشیزگی تڑپتی ہے
مرے تقاضوں پہ بِکتے ہیں تن کے افسانے
نبی کا بیٹا ہوں ابنِ علی ہے نام مرا
مرے مقام کو شمر و یزید کیا جانے
مجھے مٹانے چلے تھے جہاں سے نام مرا
مرے وجود سے آباد ہیں عزا خانے
کبھی سکول کی فیسیں کبھی وبالِ شِکَم
مری نواؤں کو انجم شناس کیا جانے
مَیں حیا ہوں فحاشی سے مجھ کو نفرت ہے
مجھے مٹانے کو نکلے ہیں چند دیوانے
مری امنگوں میں دوشیزگی مچلتی ہے
مری جوانی میں ماؤں کی کوکھ جلتی ہے

0
122