الفت کے تقاضے جو نبھانے نہیں آئے |
مجبورئِ حالات ، بتانے نہیں آئے |
ساقی کو پلانے کا بہت شوق ہے لیکن |
خُم آنکھوں ہی آنکھوں میں لنڈھانے نہیں آئے |
شیریں نہ سخن ہو تو سنے کوئی بھلا کیوں |
ویسے تو یہاں ، شعر سنانے نہیں آئے |
جب دل میں نہ باقی ہو کوئی یاد وطن کی |
لکھنے کبھی شاعر کو ترانے نہیں آئے |
یادوں کے سمندر میں جو غوطے بھی لگاؤ |
اک بار جو گزرے ہیں ، زمانے نہیں آئے |
پیراک ہیں دریاؤں کی طغیانی سے کھیلیں |
طوفان کی موجوں میں نہانے نہیں آئے |
مہمان کی خاطر سبھی دروازے کھُلے ہیں |
ہم غیروں سے ملنے کے بہانے نہیں آئے |
قربانیاں دیتے رہے نکلے تھے سفر پر |
رستے میں کہاں مذبحہ خانے نہیں آئے |
طارقؔ یہی سن کر تو مری آنکھ کھلی ہے |
آ ئے ہیں یہاں کون جو جانے نہیں آئے |
معلومات