دل کو خمار، آنکھ کو دلدار چاہیے
اس دل شکستہ کو نبیؐ، دیدار چاہیے
دنیا کے رنگ، شورِ تمنا فضول ہیں
روحِ پریشاں کو تری سرکار چاہیے
لفظوں میں قید ہو نہ سکا حالِ عاشقی
اس دردِ بے صدا کو بھی اظہار چاہیے
ٹوٹے ہوئے یقین کو بخشے جو روشنی
ایسا ہمیں نبیؐ کا وہ دربار چاہیے
اک شور تشنگی کا تو اک دید کی طلب
اس حالِ بے زباں کو بھی اظہار چاہیے
بھاتی نہیں زمین کسی بھی دیار کی
اس مہرباں کا شہر وہ انوار چاہیے
بخشش کی آس لے کے کھڑا ہوں میں در پہ آج
مجھ جیسے مجرموں کو بھی سرکار چاہیے
دنیا کے سب اصول یہاں آ کے رک گئے
اس در پہ بس ادب سرِ دستار چاہیے
گم ہو کے راہِ شوق میں پایا یہ رازِ دل
ہر ایک اجنبی کو یہی دار چاہیے
ارشدؔ نصیب ہو جو مدینے کی اک جھلک
پھر اس جہاں سے کیا ہمیں، کیا کار چاہیے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
1