جو کرے کوشش وہی سب کچھ یہاں پاتا گیا |
سوچِ فردا سے تغیر بھی اُسے ملتا گیا |
جس نے دنیا فتح کرنے کی تھی خواہش کر رکھی |
وہ سکندر آج بھی کیسے مگر چھاتا گیا |
مسکراہٹ سے ہو استقبال سارے دکھڑوں کا |
آزمائش میں وہ ہی پھر سرخرو ہوتا گیا |
کارواں منزل کو پالیتے ہیں مشکل جھیل کر |
درد کو سینہ میں رکھ کر ہنستے جو سہتا گیا |
کارناموں کا اثر تادیر اُس کا ہی رہے |
اپنے فن کا اِس جہاں میں لوہا منواتا گیا |
نام تب تاریخ میں کیسے رقم ہونے لگے |
درس دنیا کو بھلائی کا جو بھی دیتا گیا |
آخرت کی زندگی کا شوق ناصؔر ہو جسے |
مولا کو راضی بھی کرنے کو مزہ آتا گیا |
معلومات