اعلانِ کن کا مدعا محبوبِ رب صلے علی
یعنی حبیبِ کبریا مولائے من فضلِ الہ
اُن کے منور نور سے ہے، دو جہاں میں روشنی
ممنون ہے جن کی ضیا، وہ فیضِ حق شمسِ دُحیٰ
وہ جان، جانِ دو جہاں، وہ زینتِ کون و مکاں
جن سے ہیں دل کو راحتیں، وہ فرحتِ ارض و سما
یثرب کو جن کے فیض نے، ہے باغِ بطحا کر دیا
یہ چارہ گر مشکل کشا، دیتے ہیں فیضِ کبریا
آئی جہاں میں رونقیں، اُن کے حریمِ ناز سے
اُن سے دکھوں کا خاتمہ، وہ درماں دردِ لا دوا
اُن سے ہے حسنِ بندگی، اُن سے جمالِ زندگی
انسانِ کامل آپ ہیں، ہے عبدُہُ عہدہ ملا
قلب و جگر کی ہیں شفا،مقصودِ ما نورِ ہدیٰ
آقائے من صلے علی، دانائے رازِ لا الہ
محمود کہہ صلے علیٰ، محسن ہیں تیرے مصطفیٰ
مولا علی شیرِ خدا، حسنین و بیبی فاطمہ

14