کچھ اور ذکر بھی شاید زبان سے نکلے |
جو تیرا جلوۂ رخسار دھیان سے نکلے |
تری نگاہ مری جانب ایسے اٹھتی ہے |
کہ جیسے تیر ہدف پر کمان سے نکلے |
ہمارا دل ہے، کسی کی قیام گاہ نہیں |
کرایہ دار بھی ہے تو مکان سے نکلے |
پڑے ہیں میز پہ رومیؒ اِدھر، اُدھر سعدیؒ |
لو مثنوی میں گھسے، بوستان سے نکلے |
جنازہ حضرتِ تنہاؔ کا ہے، خیال رہے |
گلی سے یار کی نکلے تو شان سے نکلے |
معلومات