کچھ اور ذکر بھی شاید زبان سے نکلے
جو تیرا جلوۂ رخسار دھیان سے نکلے
تری نگاہ مری جانب ایسے اٹھتی ہے
کہ جیسے تیر ہدف پر کمان سے نکلے
ہمارا دل ہے، کسی کی قیام گاہ نہیں
کرایہ دار بھی ہے تو مکان سے نکلے
پڑے ہیں میز پہ رومیؒ اِدھر، اُدھر سعدیؒ
لو مثنوی میں گھسے، بوستان سے نکلے
جنازہ حضرتِ تنہاؔ کا ہے، خیال رہے
گلی سے یار کی نکلے تو شان سے نکلے

44