جلا کر شمعِ ہستی گلستاں کو خاک کر دوں گا |
گلوں کو پھول پتوں کو خس و خاشاک کر دوں گا |
مجھے روکو نہ اے بزمِ جہاں اس جانفشانی سے |
میں اپنی سوزِ پنہا سے جہاں کو راکھ کر دوں گا |
مجھے رہنے دے اپنے آپ میں اے ہم نشیں ورنہ |
جنونِ عشق میں آکر میں سینا چاک کردوں گا |
نہ چھیڑو داستاں کھوۓ ہوئے ان سرفروشوں کی |
تجھے اے دل بھری محفل میں میں نمناک کر دوں گا |
مبادا جل نہ جائے میری ہستی سوزشِ دل سے |
میں اپنی سوزشِ دل سے جہاں کو خاک کر دوں گا |
نڈر اے بے خطر! نہ ڈر شکوہ و شان و شوکت سے |
میں ان کوہ و بیاباں کو خس و خاشاک کر دوں گا |
اگر بیدار ہوجائے مری محفل کے نکتہ چیں |
خدارا میں کہ ان کو صاحبِ لولاک کر دوں گا |
نظارہ میری آنکھوں سے زمانے کا کرے کوئی |
دکھاکر شورشِ محشر اسے غمناک کر دوں گا |
اگر کچھ نوجواں ملت کے میرے ہم تخیل ہو |
تو اپنی قوم کو ہم پایۂ سفاک کر دوں گا |
سناکر عظمتِ رفتہ بھری محفل میں اے شاہیؔ |
جوانوں کے دلِ نازک کو میں بیباک کر دوں گا |
معلومات