جلا کر شمعِ ہستی گلستاں کو خاک کر دوں گا
گلوں کو پھول پتوں کو خس و خاشاک کر دوں گا
مجھے روکو نہ اے بزمِ جہاں اس جانفشانی سے
میں اپنی سوزِ پنہا سے جہاں کو راکھ کر دوں گا
مجھے رہنے دے اپنے آپ میں اے ہم نشیں ورنہ
جنونِ عشق میں آکر میں سینا چاک کردوں گا
نہ چھیڑو داستاں کھوۓ ہوئے ان سرفروشوں کی
تجھے اے دل بھری محفل میں میں نمناک کر دوں گا
مبادا جل نہ جائے میری ہستی سوزشِ دل سے
میں اپنی سوزشِ دل سے جہاں کو خاک کر دوں گا
نڈر اے بے خطر! نہ ڈر شکوہ و شان و شوکت سے
میں ان کوہ و بیاباں کو خس و خاشاک کر دوں گا
اگر بیدار ہوجائے مری محفل کے نکتہ چیں
خدارا میں کہ ان کو صاحبِ لولاک کر دوں گا
نظارہ میری آنکھوں سے زمانے کا کرے کوئی
دکھاکر شورشِ محشر اسے غمناک کر دوں گا
اگر کچھ نوجواں ملت کے میرے ہم تخیل ہو
تو اپنی قوم کو ہم پایۂ سفاک کر دوں گا
سناکر عظمتِ رفتہ بھری محفل میں اے شاہیؔ
جوانوں کے دلِ نازک کو میں بیباک کر دوں گا

1
125
. شمعِ ہستیؔ
. سلطان ٹیپوؒ کی یاد میں
( میں اپنی سوزِ پنہا سے جہاں کو راکھ کر دوں گا)

آج ١٥ اگست کی صبح احاطہ دار العلوم دیوبند میں جشنِ یومِ آزادی کی مناسبت سے مجاہدین آزادی ہند کی یادگار میں منعقد ہونے والے اجلاس میں جب أمیر الہند سید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ نے دوران تقریر فخر ہند ٹیپو سلطانؒ کی شہادت کی دلخراش داستان کو چھیڑا تو بے ساختہ آنکھیں چھلک پڑی، رنج و غم سے چور دل ماضی کے تصور میں کہیں کھو سا گیا ،آنکھیں بند کیے میں کہیں دور سلطان ٹیپو کی لاش کو دیکھ رہا تھا جو یہ کہتی ہوئی گریبان چاک کرنے لگی کہ میں نے اپنی پوری زندگی ملک و ملت کی پاسبانی پر نثار کردی ، غیروں کی محکومیت کے ہزاروں سالوں پر اپنی حاکمیت کے ایک ادھورے پل کو ترجیح دی مگر تم!!!!!!!! کیا کرہے ہو, گویا وہ بزبان حال اقبال کا یہ شعر کہہ رہی ہو کہ

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ؟؟
ہاتھ پر ہاتھ دھـرے منتظرِ فردا ہو ؟؟

میری حالت دگرگوں ہورہی تھی ، اندرون قلب میں کوئی طوفان برپا تھا کہ جس کی تاب نہ لاکر میں نے آنکھیں کھول لی ، پردۂ چشم کا آنکھوں سے ہٹنا تھا کہ ایک سیل رواں سیلاب امنڈ پڑا کہ جس کی اشک فشانی کی تیز دھاروں نے میرے اندر کی تمام تر سوزشوں کو ایک منظم شکل دے کر اپنی روانگی کے ساتھ بہا لے گئیں،

یقیناً وہ ایک عظیم باپ کے عظیم فرزند تھے جرأت و بہادری ان کا سرمایہ حیات تھا جو ہمیں ہر لمحہ ،ہر پل ، گھڑی ہر گھڑی دعوتِ شجاعت دے رہا ہے ، بزدل بھیڑیوں کے بیچ رہنے والے وہ ایک بہادر شیر تھے جنہوں ایک جرأت مند،شجاعت شعار آزاد شیر کی طرح آزادی سے معمور اپنی زندگی کے ایک پل کو کو گیدڑوں کی سو سالہ زندگی پر ترجیح دی اور ہمیں یہ درس شجاعت دیا کہ ہم غلامیت ( خواہ وہ سیاسی غلامی کیوں نہ ہو ) کی ہزار پر تعیش زندگی پر حریت و آزادی کی فضاء میں لیے ہوئے ایک نفس ،ایک دم، اور ایک ایسے لمحہ کو ترجیح دیں جو حیاتِ انسانی میں آزادی کی روح پھونک دے ،عروقِ مردہ میں رمقِ زندگی ڈال دے ، کبوتر کے تن نازک کو شاہیں کا جگر بخش دے ، کور و بینا ہر کس و ناکس کو عقابی نگاہ عنایت کرے ، دل مردہ میں حیات کی لہر دوڑا دے ، جو عزائم کو سینوں میں بیدار کردے ،نگاہ مسلماں کو تلوار کردے

( باری تعالیٰ کروٹ کروٹ آرام نصیب فرمائے آمین )


. شمعِ ہستی
. سلطان ٹیپو کی یاد میں