بادلوں کے بیچ سے یوں جھانکتا ہے آفتاب
جیسے اپنے گھر کو ہی دیکھے کوئی خانہ خراب
اے گلِ خندہ دہن تجھ کو تو ہوں میں نا گزیر
پھول پر بے آفتاب آتا نہیں کامل شباب
جو بھی آ کر کرتا ہے مجھ سے محبت کا سوال
اس کو میں یہ کہتا ہوں تو ہی ہے بس میرا جواب
ہم رہے بس منتظر آمد کے تیری اتنی دیر
تجھ کو دینے تھے جو ہم نے سوکھ گئے وہ سب گلاب
جب بھی اس نے جان مانگی ہم نے اس سے یوں کہا
لی جیے یہ آپ کے ہے سامنے حاضر جناب

0
13