چھپ کر آہیں بھر لیتے ہیں
جی کو ہلکا کر لیتے ہیں
اس کی خاطر ہر تہمت ہم
بڑھ کر اپنے سر لیتے ہیں
اس کو صحرا پیارا ہے تو
چلیے ہم بھی تھر لیتے ہیں
پتھر دل رونے کی خاطر
ہم سے چشم تر لیتے ہیں
جانے کیا سمجھے، ہولے سے
نام اس کا ہم گر لیتے ہیں
سوچو کیوں شیشہ دل والے
ہاتھوں میں پتھر لیتے ہیں
آنا جانا ان گلیوں میں
چھوڑیں کوئی گھر لیتے ہیں
جس کے دم سے دم میں دم ہے
نام اسکا دم بھر لیتے ہیں
سوچو آخر دیوانے کیوں
ویرانہ گھر کر لیتے ہیں
وحشت میں جی بہلانے کو
دنیا سے کچھ ڈر لیتے ہیں
کون ہیں جو تیرے قدموں کو
ہم سے بھی بڑھ کر لیتے ہیں

0
42