آنکھوں میں محبّت جو دکھائی نہیں دیتی
دولت تو فقط دل کو رسائی نہیں دیتی
آواز کسی کو جو دیے جائیں شب و روز
ہو پیار نہ اُس میں تو سنائی نہیں دیتی
مشکل ہے سفر راہ میں پتھر بھی بہت ہیں
پر راہ تری آبلہ پائی نہیں دیتی
ہم تجھ سے تعلّق تو نبھائیں گے مگر کیا
الزام ہمیں تیری خدائی نہیں دیتی
کیا وقت کے مرہم نے کِیا ہم پہ اثر ہے
وہ درد تو اب تیری جُدائی نہیں دیتی
ہم کیسے فقیروں کی طرح خاک نشیں ہوں
گر قُرب تمہارا ہی گدائی نہیں دیتی
خود اِس کی محبّت میں گرفتار ہوئے ہیں
کیسے یہ کہیں زلف رہائی نہیں دیتی
اک بار نظر آئے تو ہم آنکھیں بچھائیں
مل جائے وہ ترکیب سجھائی نہیں دیتی
طارق تِرے لہجے میں جو گرمی ہے یہ آئی
سُن زیب تجھے تلخ نوائی نہیں دیتی

0
83