گھر کہاں لوٹ کر گئے ہوں گے
دیکھ کر تجھ کو مر گئے ہوں گے
سلجھی سلجھی ہیں الجھنیں دل کی
اُن کے گیسو سنور گئے ہوں گے
حسرتِ دید لے کے آنکھوں میں
در پہ تیرے ٹھہر گئے ہوں گے
آنکھ جو آپ نے ملی ہو گی
سارے منظر نکھر گئے ہوں گے
لفظ دل کو نہ چھُو سکا ہو گا
سب ہنر بے اثر گئے ہوں گے
اُس کو شاید خبر نہیں کاشفؔ
جس کی خاطر بکھر گئے ہوں گے

177