گھر کہاں لوٹ کر گئے ہوں گے |
دیکھ کر تجھ کو مر گئے ہوں گے |
سلجھی سلجھی ہیں الجھنیں دل کی |
اُن کے گیسو سنور گئے ہوں گے |
حسرتِ دید لے کے آنکھوں میں |
در پہ تیرے ٹھہر گئے ہوں گے |
آنکھ جو آپ نے ملی ہو گی |
سارے منظر نکھر گئے ہوں گے |
لفظ دل کو نہ چھُو سکا ہو گا |
سب ہنر بے اثر گئے ہوں گے |
اُس کو شاید خبر نہیں کاشفؔ |
جس کی خاطر بکھر گئے ہوں گے |
معلومات