دن سے ملنے چلی ہے غم کی شب
آج پھر ڈھل گئی ہے غم کی شب
ٹوٹتی چاند کسی تارے پر
آن مجھ میں چھپی ہے غم کی شب
رات کے بھیگتے سے لمحوں میں
بام پر پھر سجی ہے غم کی شب
آس میں آہٹوں کے جاگی سی
من میں میرے رکی ہے غم کی شب
جھانکتی دھوپ کناروں سے سب
غم نیا دیکھتی ہے غم کی شب
نکلے پھر دن کے اجالوں میں وہ
ٹھہر کے سوچتی ہے غم کی شب
بھیڑ میں آرزو کی شاہد اک
میری آوارگی ہے غم کی شب

0
96