بابِ عطا انہی پہ ہویدا کیا گیا
جن کا نبی کے فیض میں حصہ کیا گیا
ہستی خدا کے حکم سے آئی وجود میں
جس کا نبی کے نور سے اجرا کیا گیا
آدم جہاں میں دیکھئے آئے نہ تھے ابھی
پہلے انہیں نبی پہ ہے شیدا کیا گیا
جبریل سے جو تارہ ہے دیکھا گیا حسیں
کس نور سے ہے اس میں اجالا کیا گیا
میثاق کی نشست ہو یا حشر کا قیام
ذکرِ حبیب دہر میں بالا کیا گیا
سب پر ہوا عیاں ہے یہ شانِ بلال سے
بندہ نبی کے عشق میں مولا کیا گیا
پتھر رکھے ہیں پیٹ پہ فاقہ ہے خانہ میں
پھر بھی نعیمِ خلد کو صدقہ کیا گیا
راہیں نبی کے نور سے روشن ہوئی ہیں یوں
جنت کے رستے کو ہے کشادہ کیا گیا
کون و مکان ہیں سجے لطفِ حبیب سے
لولاک کہہ کے سب کو ہے اعلی کیا گیا
شفقت حضور سے ہے یہ ہر اک جہان پر
رحمت کو ہے دہر میں جو اولا کیا گیا
محمود کامرانیاں قدموں میں خود گریں
گر مصطفی کو جان سے اولیٰ کیا گیا

0
15