کلامِ حسن میں ہے عظمت کسی کی
چلیں ہم بھی کرتے ہیں مدحت کسی کی
دمِ نزع مجھ سے فرشتے یہ بولیں
ترے دل میں پائی ہے الفت کسی کی
فرشتے جب آئیں لحد میں مری تب
زبانِ گدا پر ہو مدحت کسی کی
خدا فضل کر دے جو روزِ قیامت
ہو عاصی کے حق میں شفاعت کسی کی
کہیں غوث و خواجہ ، کہیں ہے علی شاہ
نرالی جہاں سے ہے عترت کسی کی
ہے خلدِ بریں بھی فدا جس پہ ہر دم
عجب پیاری پیاری ہے تربت کسی کی
ملے گر مقدر سے جا ان کے در پر
نہیں پھر گدا کو ہے حاجت کسی کی
الہٰی عطا کر مجھے تو وہ آنکھیں
کہ ہر شب مجھے ہو زیارت کسی کی
خدا کی قسم ہے مرے پاس جو کچھ
ہے صدقہ رضا کا ،عنایت کسی کی
کسی نے کہی جب کسی پر جو باتیں
کسی نے ہے کی پھر نیابت کسی کی
خدا عاشقوں سے یہ فرمائے مانگو
تو مانگے گا عاشق بھی قربت کسی کی
ہے نیچی نگاہوں میں کتنی ہی قوت
کہ چھپتی نہیں ہے مصیبت کسی کی
بڑا پیارا پیارا وہ آقا ﷺ کا گنبد
کہ ہر دم برستی ہے رحمت کسی کی
الہٰی نہ چھوٹے رضا کا یہ دامن
بتائی ہے جس نے یہ عظمت کسی کی
ہے حاجی علی کا یہاں پر یہ روضہ
جہاں پر ہے بٹتی یہ نعمت کسی کی
دمِ حشر ہو یہ کرم نور پر کہ
کرے با ادب یہ بھی مدحت کسی کی

61