صدمے میں ہوں اس وقت تو کچھ کہہ نہیں سکتا
آنکھوں سے یونہی سیلِ رواں بہہ نہیں سکتا
آئینے کو ضد ہے کہ اسے سامنے لاؤ
چہرے کو حیا آتی ہے دکھ سہہ نہیں سکتا
کیوں زندہ ہے تُو آج بھی اے جھوٹے فریبی
تُو کہتا تھا مَیں تیرے بنا رہ نہیں سکتا
آتی ہیں نظر دونوں طرف زخمی لکیریں
آئینہ کیا دل بھی ستم سہہ نہیں سکتا
نیرنگِئی دوراں نے عجب چرکے لگائے
وہ چوٹ لگی ہے کہ جگر سہہ نہیں سکتا
سوچا تو یہی ہے کہ ابھی ختم ملاقات
پر دیکھے بنا اس کو بھی مَیں رہ نہیں سکتا
آؤ کبھی امید کریں وِردِ مُحمّد
اس روح سے بے گانہ کوئی رہ نہیں سکتا

1
66
کمال خواجہ صاحب...
سوچا تو یہی ہے کہ ابھی ختم ملاقات
پر دیکھے بنا اس کو بھی مَیں رہ نہیں سکتا

0