صدمے میں ہوں اس وقت تو کچھ کہہ نہیں سکتا |
آنکھوں سے یونہی سیلِ رواں بہہ نہیں سکتا |
آئینے کو ضد ہے کہ اسے سامنے لاؤ |
چہرے کو حیا آتی ہے دکھ سہہ نہیں سکتا |
کیوں زندہ ہے تُو آج بھی اے جھوٹے فریبی |
تُو کہتا تھا مَیں تیرے بنا رہ نہیں سکتا |
آتی ہیں نظر دونوں طرف زخمی لکیریں |
آئینہ کیا دل بھی ستم سہہ نہیں سکتا |
نیرنگِئی دوراں نے عجب چرکے لگائے |
وہ چوٹ لگی ہے کہ جگر سہہ نہیں سکتا |
سوچا تو یہی ہے کہ ابھی ختم ملاقات |
پر دیکھے بنا اس کو بھی مَیں رہ نہیں سکتا |
آؤ کبھی امید کریں وِردِ مُحمّد |
اس روح سے بے گانہ کوئی رہ نہیں سکتا |
معلومات