ايثارِ وفا کا گُر ہم سمجھیں جیالوں سے
آدابِ محبت کوئی سیکھے فسانوں سے
دیکھو نہ حقارت سے افلاس کے ماروں کو
"ایوان دہلتے ہیں مظلوم کی آہوں سے"
معبودِ حقیقی کرتا ان پہ کرم اپنا
تائب بنیں گے جو بندے اپنی خطاؤں سے
کیوں تاج محل کی حسرت دل میں ابھرتی ہے
دیوانگی چھائی رہتی دل میں ہے برسوں سے
الفت کے پرستاروں میں نام تبھی آئے
یک جان دو قالب عاشق جب ہوں مزاجوں سے
سچائی کی مشعل کو ناصؔر نہیں چھوڑیں گے
منزل ہمیں مل جائے ایسے ہی ارادوں سے

0
49