شب سناتے ہوئے فسانہِ عشق
اُن سے یہ کہہ رہا تھا فتنہِ عشق
کیا یونہی گزرے گا زمانہِ عشق
منتظر ہے غریب خانہِ عشق
اِس طرف بھی ہو جلوہ آرائی
ہستیِ بے مثال واصف کو
سیرتِ خوش خصال واصف کو
جستجوئے وصال واصف کو
آرزوئے کمال واصف کو
کوئے جاناں میں سر کے بل لائی
غم سبھی منہ کے بل گرے واصف
بخت اپنے چمک اُٹھے واصف
اب مِرے گھر دیے جلے واصف
پرسشِ غم کو آ گئے واصف
آج اپنی بھی بات بن آئی

0
46