اب ناچتے بھی ہیں ضمیر یہاں بے حجاب ہو کر |
کا لے دِکھتے ہیں اجلے چہرے بے نقاب ہو کر |
جی خلوص و وفا کے موتی کم ہی ملتے ہیں |
انمول ہو جاتے ہیں ہیرے نایاب ہو کر |
جب سے ہوا ہے مرا دل درد آشنا تب ھی سے تو |
جی رُوٹھے ہوئے ہیں مجھ سے خواب بے خواب ہو کر |
جب ہاتھ و پاؤں دھوکا دینے لگتے ہیں |
غم بھی ہنسنے لگتے ہے جی بے حساب ہو کر |
معلومات