دیارِ یار سے ہم تو رو کے نکلے
کہ الزامِ جفا کو ہم دھو کے نکلے
صفائی دی نہ ہی ہم نے بہانا کیا
ندامت خوب آنکھوں سے رو کے نکلے
کہے بن کچھ وہ سب کچھ جان لیتا ہے
کہ میرا درد کچھ پنہاں ہو کے نکلے
عدالت اس کی حق کا حکم دیتی ہے
کہ پھر ملزم یا پھر مجرم ہو کے نکلے
تمنا میں یہ وقتِ مرگ رکھتا ہوں
مسلماں روح تو میری ہو کے نکلے
لکھے ہیں سعد جو بھی جرم سب میرے
کہ چھٹ جائیں مناسب گر ڈھو کے نکلے

0
88