ہمیں سکھایا یہی گیا تھا ہمیں پڑھایا یہی گیا تھا
کہ اپنی منزل مراد وہ ہی سفر یہ اپنی نجات کا تھا
وہ سر میں سودا سما گیا تھا لگا بلاوا بھی آ گیا تھا
کسی نے اپنا مکان بیچا کسی نے اپنی زمین بیچی
کسی نے گروی رکھے تھے زیور کسی نے اپنی دکان بیچی
چلے تھے گھر سے یہ عہد کر کے خدا سے مل کے ہی اب رہیں گے
عجیب منظر تھا میری آنکھیں یہ دیکھنے کو تھیں کیوں سلامت
کمانداروں کے سخت پہرے میں خانہ کعبہ گھرا ہوا تھا
وہ کہہ رہے تھے یہ قفل سارے کھلیں گے طاقت کی چابیوں سے
جو سب کچھ اپنا لٹا کے پہنچے یہاں پہ آ کے بھی لٹ گئے تھے
وہ در پہ کعبہ کے کیا پہنچتے وہ کالی چادر کو چھو نہ پائے
یہی جگہ تھی جہاں پہ حطبے میں یہ ہی چرچا کیا گیا تھا
کہ اس کی نظروں میں سب برابر نہ گورا کالا نہ پیسے والا
کہا تھا تقویٰ ہے بس کسوٹی مگر وہ میزان اب کہاں ہے
عجیب منظر میں دیکھتا ہوں کہ جن کو تقویٰ نہ چھو کے گذرا
ہمارے سلطان لاکھوں چوہے نگل کے کعبہ میں کھس گئے تھے
تقوے والے اداس آنکھوں سے کالی چادر کو دیکھتے تھے
کہا تھا مجھ سے یہ میری ماں نے خدا کا مسکن تمہارا دل ہے
جو بت بٹھایا تھا دل کے اندر وہ اک چھناکے سے گر گیا ہے
مجھے بتاؤ خدا کہاں ہے مجھے بتاؤ خدا کہاں ہے

0
39