کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں |
پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں |
پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی |
جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں |
ہم نے ہر ہر بل کے بدلے خُوں بہایا ہے یہاں |
تب کہِیں جا کر پڑے ہیں پیچ یہ دستار میں |
ذائقوں سے ان کے ہم کو کچھ نہیں ہے اِنحراف |
سب سے میٹھا پھل مگر ہے صبر سب اثمار میں |
چُرمراتے سُوکھے پتوں پر قدم رکھتے ہوئے |
کھو کے رہ جاتے ہیں ماضی کی حسِیں مہکار میں |
کیا ہی اچھّا تھا کہ ہم کرتے کِسی نُکتے پہ بات |
ہم دُکاں داری لگاتے ہیں فقط تکرار میں |
کل تمہارے پاؤں چاٹیں گے ہمارا کام ہے |
آج حاضِر ہو نہِیں پائے اگر دربار میں |
زیدؔ نے لوگوں میں بانٹا، آج آٹا، دال، گِھی |
اِس توقع پر کہ ہو گی کل خبر اخبار میں |
ہم تُمہاری بے زبانی سے تھے تھوڑا آشنا |
کِھلکھلاتی "ہاں" چُھپی تھی "پُھسپُھسے اِنکار میں |
تھا زمانہ وہ تُمہارے ناز کا، انداز کا |
شرم کے مارے گڑھے پڑتے تُمہیں رُخسار میں |
کام کیا ایسا پڑا ہے، ڈھونڈتے ہو کس لِیئے |
ہم سے مِلنا ہے پِھر ڈُھونڈو ہمیں اشعار میں |
اِک وفا کو چھوڑ کر تصویر میں سب کچھ مِلا |
اے مصوّر رہ گئی بس اک کمی شہکار میں |
شاعری تو خاک کر لیں گے مگر اِتنا ضرور |
فیضؔ کا سندیس گویا روزنِ دِیوار میں |
کیا حقِیقت پُوچھتے ہو، زِندگی اِک جبر ہے |
درد بن کر خُون بہتا ہے تِرے فنکار میں |
آج اپنے فن کی لوگو قدر دانی کُچھ نہیں |
کل ہمیں ڈھونڈا کرو گے تم قدیم آثار میں |
آخری شمعیں بھی اب تو پھڑپھڑا کے رہ گئِیں |
مُنتظِر بیٹھے ہوئے ہیں ہم یہاں بےکار میں |
وہ، تعلُّق جِس کی خاطِر سب سے توڑا تھا رشِیدؔ |
لو چلا ہے وہ بھی ہم کو چھوڑ کر اغیار میں |
رشید حسرتؔ |
معلومات