رچی ہے خوشبو فضا میں گلاب آزادی
زباں پہ جاری ہے ہر سو خطاب آزادی
چڑھائیں گردنیں علما نے سولی پر اپنی
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتاب آزادی"
گواہ شاملی کی جنگ خونچکاں بنی ہے
لہو بہا کے ہوئے فیضیاب آزادی
سپہ میں جوش کی ہرگز کمی نہ تھی موجود
سوار کیسا جنوں تھا وہ خواب آزادی
وہ کاروان تھا نانوتوی ؒکا جس کے سبب
نصیب ہو چکا ہے آفتاب آزادی
اگر خراج عقیدت شہیدوں کو نہ ہو پیش
ادھورا ورنہ یہ رہ جائے باب آزادی
غلامی ختم ہوئی تب ہماری ہے ناصؔر
بھڑک گئی جو تپش انقلاب آزادی

0
82