خوب آشیانہ سجایا ہے
آج یار کو گھر بُلایا ہے
دم بخود ہے رفتارِ زندگی
تنہا چل کے پیدل وہ آیا ہے
پڑھتے کیوں نمازِ کُسوف ہو
رُخ سے پردہ اس نے گرایا ہے
بن گئے ہیں کُندن نتیجتاً
اتنا پرکھا اور آزمایا ہے
تھا خُلاصہِ زندگی الَخ
جو ہنسی ہنسی میں اُڑایا ہے
تشنہ لب ہی لوٹانا تھا اگر
تو قریب پھر کیوں بُلایا ہے
حُسن ہے وہ توبہ شکن بہت
عشق سے مِؔہر باز آیا ہے
----------٭٭٭----------

1
107
منیب چوہدری،
سابقہ عید مبارک اور
آپکے اظہارِ پسندیدگی کا شکریہ !
سدا خوش رہیں آپ
عدنان مُغل

0