خوب آشیانہ سجایا ہے |
آج یار کو گھر بُلایا ہے |
دم بخود ہے رفتارِ زندگی |
تنہا چل کے پیدل وہ آیا ہے |
پڑھتے کیوں نمازِ کُسوف ہو |
رُخ سے پردہ اس نے گرایا ہے |
بن گئے ہیں کُندن نتیجتاً |
اتنا پرکھا اور آزمایا ہے |
تھا خُلاصہِ زندگی الَخ |
جو ہنسی ہنسی میں اُڑایا ہے |
تشنہ لب ہی لوٹانا تھا اگر |
تو قریب پھر کیوں بُلایا ہے |
حُسن ہے وہ توبہ شکن بہت |
عشق سے مِؔہر باز آیا ہے |
----------٭٭٭---------- |
معلومات