قلبِ مضطر کو شفا اب تو دلاؤ خواجہ
مجھ کو اجمیر میں تم پھر سے بلاؤ خواجہ
ترے دربار میں سائل کی سنی جاتی ہے
مجھ کو طابہ کا ٹکٹ اب تو دلاؤ خواجہ
علمِ اسرار و حقائق کے ہو عارف تم بھی
معرفت کا مجھے تم جام پلاؤ خواجہ
عرس میں لاکھوں ہی اقطاب و ولی آئے ہیں
مجھ خطاکار کو بھی در پہ بلاؤ خواجہ
جرم و عصیاں کے سمندر میں نہائے ہوئے ہیں
مژدہ نانا ﷺ کی شفاعت کا سناؤ خواجہ
مرے مرشد کے محب پیارے وہ اشفاق کو بھی
اپنے دربار میں تم اب تو بلاؤ خواجہ
یہ گناہوں کا مجھے خوف ستاتا ہے شہا
راہِ نیکی کی طرف مجھ کو چَلاؤ خواجہ
میرے جتنے بھی ہے اصحاب سبھی پر ہو کرم
سب کی بگڑی کو بھی تم جلد بناؤ خواجہ
ناقص و بد سے ہو یہ شان بیاں کیا تیری
انقص الفاظ کو بھی تم ہی نبھاؤ خواجہ
آتشِ غم مری ہر لمحہ بڑھی جاتی ہے
دل کی دنیا کو مسرت سے جگاؤ خواجہ
ہے جو سنی کی بناوٹ میں روافض سارے
ان کو اس پاک زمیں سے بھی بھگاؤ خواجہ
ہو ہی جائے نہ کہیں نور گٹھن سے ہی ختم
قلبِ مضطر کو بھی اب تم ہی جِلاؤ خواجہ
سگ رضا نور علی عطاری رضوی
10 رجب المرجب 1444 ھ‌
2 فروری 2023

0
41