یوں جو پل پل بدل رہا ہوں میں
تیری جانب ہی چل رہا ہوں میں
مجھ کو پھینکا ہے گھر سے باہر کیوں
گر مصیبت کا حل رہا ہوں میں
تلخ میری زبان ، ہے سچی
گولی کڑوی ، نگل رہا ہوں میں
آگ کب کب نہیں لگائی گئی
کون کہتا ہے جل رہا ہوں میں
تجھ سے ملنے کی آس رکھتا ہوں
بس تری رہ پہ چل رہا ہوں میں
ہوں بھکاری کھڑا ترے در پر
تیرے ٹکڑوں پہ پل رہا ہوں میں
قُرب سے شعلہ پیار کا بھڑکا
رفتہ رفتہ پگھل رہا ہوں میں
طارق اس اجنبی سی دنیا میں
بس کوئی چار پل رہا ہوں میں

0
11