رواں اپنی رحمت کا میزاب کر دے |
سبھی تشنہ روحوں کو سیراب کر دے |
تلاشِ ہدایت میں ہوں بے قرار اب |
دل اس جستجو میں یوں بے تاب کر دے |
منوّر خرد ہو ، نگہ دور بیں ہو |
دلوں پر عیاں اپنا مہتاب کردے |
نہ ہو یہ کہ گرد و غبار ان کو ڈھانپے |
جو لعل و گہر سارے نایاب کر دے |
مریضوں کی خاطر طبیب اس نے بھیجا |
جو بیماریوں سے شفا یاب کر دے |
سفینے میں سب نوح کے آ کے بیٹھیں |
یہ بچ جائیں ختم ان کے سیلاب کر دے |
دعاؤں میں جو ناخدا کی اثر ہو |
تو رستے کے سب دُور گرداب کر دے |
ترے باغ کے ہو گئے خشک بُوٹے |
مرے نالۂ شب سے شاداب کر دے |
ہے طارق کی در پر ترے آہ و زاری |
کہ اب ان کی بخشش کے اسباب کر دے |
معلومات