شبِ وصال ہے ہم ہوکہ اشکبار چلے
لکھا عریزِ پہ کب تک یہ انتظار چلے
خدا کے شیر کی کچھ یُوں یہ ذلفقار چلے
ہے ایک وار بہت کیوں یہ بار بار چلے
زمیں کو رشک ہے تیرے ہر ایک ناصر پر
کہ آسمان تھے جو کرکے جاں نثار چلے
سروں پہ ظلم برستا ہے بیگناہوں کے
سروں پہ ظلم کہ اب تیغِ برق دار چلے
کریں ہیں جنگ کا اسرار دشمنانِ علی
چلے جو آؤ تو یہ جنگ آر پار چلے
چراغِ نسبتِ مہدی ہے بجھ نہیں سکتا
یہ سازشوں کی ہوا لاکھ زوردار چلے
خزاں میں درد کہ یہ زرد زرد چہرے ہیں
دلوں کے زخم بھرے باد نو بہار چلے
بہارِ عشقِ حسینی ہے ماہ شعباں کا
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
شعورِ نصرتِ مہدی نہیں ملا صایم
ہوے جو غم سے پریشاں یونہی پکار چلے

0
36