| ہجر سرور بن کے یوں میرے سینے میں رہا |
| دل عمر بھر تیری یادوں کے نشے میں رہا |
| اس تسلی پر سنبھالے رکھے تیرے ستم |
| کچھ تو تیری طرف سے اپنے حصے میں رہا |
| منزلوں کا ہوش کس کو رہا پھر تیرے بعد |
| یہ مسافر تو ہمیشہ ہی رستے میں رہا |
| مستقل غم پا لئے چند خوشیوں کے عوض |
| مطمئن ہوں میں یہ سودا بھی سستے میں رہا |
| یاد تجھ ہی کو کیا اپنے ہر اک شعر میں |
| ذکر تیرا میرے ہر ایک قصے میں رہا |
معلومات