روز مجھ سے فساد رکھتا ہے
اس طرح خود کو شاد رکھتا ہے
میری اچھائیاں بھلا کر وہ
غلطی ہر اک وہ یاد رکھتا ہے
روز وہ مسکرا کے ملتا ہے
دل میں پھر بھی عناد رکھتا ہے
اس کی ہر بات مان لیتا ہوں
پھر بھی مجھ سے تضاد رکھتا ہے
مجھ کو برباد کر کے اب شاہدؔ
کون سا اب مفاد رکھتا ہے

0
38