| طبیبِ دل ترے اطراف یہ بیمار کیسے ہیں! |
| لڑائی ہو چکی تو سنگ یہ ہتھیار کیسے ہیں! |
| کبھی مائل، کبھی بے زار ہے دل کی طبیعت سے |
| مشیت کیا ہے اب تیری! ترے اوتار کیسے ہیں! |
| فنا کی صورتوں میں گر مزین ہے تری دنیا ! |
| عناصر قیمتی ہو کر بھی یہ بےکار کیسے ہیں! |
| محبت کی اکائی سے جڑا ہے راز ہستی بھی |
| جو میرا عشق سچا ہو تو پھر آزار کیسے ہیں! |
| تناور پیڑ کی مانند واں ہیں لوگ رستے میں |
| تِری گلیوں سے جانا ہے تِرے بازار کیسے ہیں! |
| میں ثاقب سوچ کر اسکو بیاضِ دل سناتا ہوں |
| وہ ہنس کے بولتا ہے"یہ تِرے اشعار کیسے ہیں"! |
معلومات