آنکھ اب اشک ہی سے خالی ہے |
حیف صد حیف! خشک سالی ہے |
جچ رہا ہوں میں مسندِ غم پر |
حالتِ زار بے مثالی ہے |
آ گِرے گی مِری ہتھیلی پر |
وہ دعا جو ابھی اچھالی ہے |
تم یہ سمجھو کہ کچھ نہیں دنیا |
شش جہت میں جو ہے، خیالی ہے |
ناز تیرے اٹھا رہا تھا میں |
اور انگشت ہی جلا لی ہے |
آپ، یعنی حسِین؟ کیا کہنے! |
آپ کو وہمِ خوش جمالی ہے |
وہ سلیقہ شعار لڑکی ہے |
جس سلیقے سے بات ٹالی ہے |
دل سمجھتا ہے مر گیا شائد |
دل سے بس آرزو نکالی ہے |
بھوک مرتی یتیم لڑکی نے |
آبرو بیچ کر رِدا لی ہے |
تھل کی گرمی سے جل گئی سسی |
سوہنی جل نے مار ڈالی ہے |
مضطربؔ لفظ چھوڑ کر ہم نے |
بزم سے خامشی اٹھا لی ہے |
معلومات