| یہ جو آئینے سے باہر ملا ہے |
| یہی باطن ہے اور ظاہر ملا ہے |
| سبق ہم کو ہماری بے خودی کا |
| اُسے ابہام میں پا کر ملا ہے |
| بِلا سوچے جو شاید چل پڑا تھا |
| بھلائی سے مری قاصر ملا ہے |
| وہی پھر صبر سے تعبیر ہوگا |
| جو اپنے اَمر میں شاکر ملا ہے |
| خدا مل جائے تو اس میں بُرا کیا |
| ہمیں ناصح اگر کافر ملا ہے |
| تمھارے دل میں اِتنے وَسوسے ہیں |
| کہ اپنا بوریا باہر ملا ہے |
| توازن پا گئی ہیں نفرتیں بھی |
| محبت کا ثمر آخر ملا ہے |
| ہماری آنکھ کے آنسو ہیں اس کے |
| کَڑی مشکل میں جو آ کر ملا ہے |
معلومات