دیکھ ناداں اندلسؔ، بغدادؔ کا انجام دیکھ
دے رہا ہے ہندؔ بھی تجھ کو وہی پیغام دیکھ
آگہی تاریخ سے کچھ بھی نہیں واللہ تجھے
ہے سرِ فہرست تیرا اے مسلماں نام دیکھ
کل تلک تو عالمِ بالا میں تیری دھوم تھی
آج اپنی نا گہی کا ہاۓ تو انعام دیکھ
ہے وجودِ قوم خطرے میں مگر رہبر میاں
باندھ کر جاتے ہوئے سوۓ حرم احرام دیکھ
مضطرب ہے سر پہ گر جانے کو یہ نیلا سما
بے خبر کی نیند دیکھو عیش اور آرام دیکھ
رفتہ رفتہ کیسے تجھ سے چھنتے جاتے ہیں وطن
کل سریا آج برما اب کی یہ آسام دیکھ
دو گھڑی میں آنے والی ہے مصیبت ناگہاں
دہر کے غافل! تحفظ کا ذرا اقدام دیکھ
دیکھ اپنی چشمِ دل سے عقل کے گرہوں کو کھول
دشت و دریا گلشن و صحرا کو خوں آشام دیکھ
وہ جو کرتے تھے کبھی سو جان ملت پر فدا
خالدِ جانباز کی اب نازکی اندام دیکھ
اے تماشائی تماشا گاہ سے پر لطف ہو
ختم ہوتا صفحۂ ہستی سے اب اسلام دیکھ
بزمِ عالم سے مسلماں کس طرح ناپید ہو
قوم کے اے نو جوانو ! فتنۂ اقوام دیکھ
ہو رہا ہے سرخ استقبال کا روشن افق
رفتہ رفتہ رنگ بدلتے گردشِ ایام دیکھ
با خبر کردے قیامت خیز نظاروں سے تو
اے کہ شاعر آ رہے ہیں مجھ کو یہ الہام دیکھ
صبحِ مومن سارے نظارے لیے گم ہو گئی
عالمِ اسلام کی ڈھلتی ہوئی اب شام دیکھ
واۓ ناکامی یہ حسرت دل گرفتہ بادہ نوش
مے کدہ ویران ہے ساقی کے لب پر جام دیکھ
جرمِ بادہ خواری کی کیا یہ سزا ہے ساقیا
اپنے رندوں کی ذرا تو حسرتِ ناکام دیکھ
خانماں آباد مے خانے کو یہ کرکے تباہ
بادہ نوشوں کے لہو کا بہتا دریا عام دیکھ
دے دلِ مومن میں پھر وہ جذبۂ سیلِ رواں
ہیں مسلط تیرے بندوں پر یہ ہندی فام دیکھ
مٹ رہی ہے بزمِ احمدؐ اے خدا تو بھی تو دیکھ
ہنس رہے ہیں کیوں صنم خانے میں اب اصنام دیکھ
کس بھیانک موڑ پر ہے ہندؔ کی شاہیؔ نسل
آٹھ سو سالہ حکومت کا ذرا اتمام دیکھ

1
123
شکریہ