زیست کو جینا ہے تو سفرِ بے معنی چھوڑ دے
سوچ سکتا ہے کہ تُو اپنی یہ ڈگری چھوڑ دے
بھوک اس میں ہے عطش اس میں ہے خلوت اس میں ہے
دوستوں کا کہنا ہے تُو شاعری ہی چھوڑ دے
اس کی طاقت ہوں میں میرا دل یہ کہتا ہے مجھے
عقل لیکن مجھ کو کہتی ہے یہ لڑکی چھوڑ دے
خواہشیں گر ٹوٹی ہیں تو پھر بھی ہنسنا تُو نہ چھوڑ
مان کر اللہ کی چل اپنی مرضی چھوڑ دے
اپنا رہبر تُو فقط اپنے خیالوں کو بنا
ہو کے بندہ تُو خدا کا بے جا مستی چھوڑ دے
مشورہ اعجازؔ تیرے دوستوں کا ٹھیک ہے
اپنے ان جذبات کی فی الحال گرمی چھوڑ دے

0
52