| زیست کو جینا ہے تو سفرِ بے معنی چھوڑ دے |
| سوچ سکتا ہے کہ تُو اپنی یہ ڈگری چھوڑ دے |
| بھوک اس میں ہے عطش اس میں ہے خلوت اس میں ہے |
| دوستوں کا کہنا ہے تُو شاعری ہی چھوڑ دے |
| اس کی طاقت ہوں میں میرا دل یہ کہتا ہے مجھے |
| عقل لیکن مجھ کو کہتی ہے یہ لڑکی چھوڑ دے |
| خواہشیں گر ٹوٹی ہیں تو پھر بھی ہنسنا تُو نہ چھوڑ |
| مان کر اللہ کی چل اپنی مرضی چھوڑ دے |
| اپنا رہبر تُو فقط اپنے خیالوں کو بنا |
| ہو کے بندہ تُو خدا کا بے جا مستی چھوڑ دے |
| مشورہ اعجازؔ تیرے دوستوں کا ٹھیک ہے |
| اپنے ان جذبات کی فی الحال گرمی چھوڑ دے |
معلومات