میں استعمال کی حد پر ہوں
نہیں استحصال کی حد پر ہوں
تو کہتا ضد بے حد مجھ میں
اور میں بے حد کی حد پر ہوں
ضائع ہو رہا میرا احساس اور
پھر کہنا خیال کی حد پر ہوں
ملنے کا وقت نہ میسر اور
تیرے اوقات کی حد پر ہوں
تو جانے پیار کا ظاہر بس
اور میں اسرار کی حد پر ہوں
یہ معجزہ ہے اک تقدس بھرا
میں اس بیوپار کی حد پر ہوں
مری کھوٹ عداوت بےحسی گواہ
کہ تیرے اظہار کی حد پر ہوں
تیرے وصل اور فراق بیچ
میں ہجر کی سرحد پر ہوں

0
64