دل کے رازوں کو بتانے میں بہت دیر لگی
پیار کے زخم بھلانے میں بہت دیر لگی
ماسک چہروں پہ چڑھے تھے نظر آتا کیسے
اصلی چہرا نظر آنے میں بہت دیر لگی
ہاتھ تھاما تھا کہ زہر پھیل گیا میرے اندر
اس سے پھر ہاتھ چھڑانے میں بہت دیر لگی
ایک ہی وار میں پھر اس کو گرایا ایسے
ھم کو جو پیڑ اگانے میں بہت دیر لگی
سر جتنے بھی اٹھے وہ تو ہیں پیروں میں گرے
ہمیں سر اپنا جھکانے میں بہت دیر لگی
آگ ایسی لگی اس بار کہ سب راکھ ہوا
ہمیں گھر اپنا بچانے میں بہت دیر لگی
خود کو رکھ کر میں کہیں بھول گیا تھا شاہد
خود کو پھر ڈھونڈ کے لانے میں بہت دیر لگی

0
77